دعوت اصلاح در اصل جذبۀ شفقت ومحبت
ہے۔ جو داعی کے دل میں اس وقت ظاہر ہوتا ہے۔ جب وہ مدعو کو اس كي کسی غلطي كے سبب خطرے
میں دیکھتا ہے۔ تو اسے بچانے کے لئے وه تڑپ جاتا ہے۔ اسے اس غلطي سے باز ركھنے كے
لئے ہر ممکن ومباح وسائل کو استعمال کرتا ہے۔ ہر جائز طریقے کو بروئے کار لاتا ہے۔
حسب حال کبھی لاڈ وپیار سے، کبھی حکمت وبصیرت کے ساتھ سمجھا بجھا کر، کبھی ناراضگی
دیکھا کر، کبھی کسی مؤثر شخصیت کا تعاون لے کر اور کبھی حسب ظروف طاقت کا استعمال
کر کے، غرض ہر قیمت پر مدعو کو خطرے سے بچانا اس كا اصل هدف ہوتا ہے۔
یہاں سے ایک بات واضح ہو جاتی ہے۔ کہ
ہر زمان ومکان اور سارے ظروف احوال کے لئے کوئی ایک ہی طریقۀ دعوت محصور نہیں ہے۔
لہذا افادیت ہو یا نہ هو زمانہ سے چلے آ رہے کسی ایک ہی طریقہ پر خود کو بندھا ہوا
نہ رکھيں۔ بلکہ اسالیب دعوت داعی کے صوابدید پر ہے۔ جديد وسائل كا استعمال اور حالات
کے مطابق جو مباح طريقه مناسب اور مؤثر ہو اسے بروئے کار لائيں۔ يهي حكمت ومصلحت هے۔ اور دعوت ميں اس كي خاصي اهميت
هے۔
واضح رہے کہ دعوت میں زور زبردستی کو
دخل نہیں ہے۔ نہ ہی گھسے پٹے ایک ہی طریقے کو بار بار آزمایا جائے، کہ اصلاح کی
جگہ وہ اوب جائے اور متنفر ہونے لگے۔داعي كو هميشه ميں مسكين بن كے دعوت دينا يا
هر حال ميں طاقت كا استعال كرنا ضروري نهيں هے۔ حالات وصلاحيت كے مطابق اپنی حد تک
اتمام حجت کر ديں، اور باقی اللہ سبحانہ پر چھوڑ ديں۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ دعوت اصلاح دھونس
جمانا، خامیوں پر عار دلانا، لوگوں میں فضیحت کرانا، اپنی افضلیت ثابت کرنا، احسان
جتانا یا اس کے منفی رد عمل سے لڑنے جھگڑنے پر اتارو ہو جانا ہر گز نہیں ہے۔ كسي
كا آپ كي بات قبول نه كرنا هر حال ميں اس كب دليل نهيں هے كه خامي اسي كے اندر هے۔
ممكن هے آپ كو اپنے طريقه پر نظر ثاني كي ضرورت هو۔ یوں سمجھيں کہ آپ کا چھوٹا بچہ
آگ کے انگارے کو ہاتھ لگانے جا رہا ہے۔ ایسے میں سب سے پہلے آپ کے دل میں شفقت کا
جذبہ ابھرے، پھر دل میں اسے بچانے کی تڑپ پیدا ہو، اس کے بعد اسے باز ركھنے كے كارگر
وسائل واسباب کا استعمال بتدریج نرمی وشفقت سے شروع کريں۔ اس کے منفی رد عمل رونے
چیخنے سے بپھر نہ جائيں۔ ہمت نہ ہاريں۔ مسلسل اسے بچانے کی مختلف کوششیں جاری رکھيں۔
حتی کہ اللہ تعالیٰ آپ كو کامیاب کر دے۔
اور ياد ركھيں كه اسے اس خطرے سے نه بچا پانا آپ كي ناكامي هوگي۔
دعوت کی کچھ ترجیحات ہیں۔ سب سے پہلے
علم حاصل کرنا، پھر اس پر عمل کرنے لگ جانا، اس کے بعد دعوت کے اصول وضابطے کو
سمجھتے ہوئے میدان میں اترنا، بجائے اس کے کہ چند باتوں کو ہی پوری کی پوری دعوت
مان کر ہمیشہ اسی کی دعوت دی جائے، اور انهیں باتوں کو دعوت کا نصاب قرار دے دیا
جائے، اعمال سے پہلے عقائد کی اصلاح ہونی چاہئے۔ کیوں کہ سارے انبیاء کرام علیہم
السلام کا یہی طریقہ رہا ہے۔ اور اس لئے بھی کہ عقیدہ کی درستگی کے بغیر عمل کتنا
هی اچھا ہو جائے عند الله قابل قبول نهيں رهتا، بلكه وه ضائع ہو جاتا ہے۔ لہذا بنا
کسی لف ودوران کے، بغیر کسی خوف وخطر کے، مداہنت وتنازل سے بالا تر ہو کر صحیح
اسلامی عقائد پیش کئے جائیں۔ کیوں کہ عقائد میں خود ساختہ حکمت وغیرہ کے نام پر
کمپرمائز کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مدعو کے دور ہو جانے کے ڈر سے عقائد کا بیان ترک
کر دینا یا کمپرمائز کر لینا حکمت نہیں ہے۔ بلکہ بیان کرنے کے طریقے اور لہجے میں
نشیب وفراز کے اندر رعایت ہونا حکمت كهلاتا ہے۔
مناهج دعوت ميں امت مستجابه وغير
مستجابه نيز دعوت اور امر بالمعروف ونهي عن المنكر اسي طرح مراتب ازالۀ منكر وغيره كي رعايت بھي
حكمت ميں شامل هے۔ دعوتي فلڈ ميں جو جتنا آگے بڑھتا هے۔ اسے ان اصولوں كي ضرورت
اتني پڑتي هے۔ البته ايك عام انسان جو مشكل سے ايك سورة سيكھ پاتا هے۔ وه ان اصولوں
كے پيچھے كيا بھاگے۔ جب موقعه مل جائے كسي كو وه سورة سيكھا دے۔ كيوں كه دعوت تو
مستوى اور صلاحيت ولياقت كے تناسب سے هر انسان پر فرض هے۔
داعی کے لئے کچھ دن خاص کر لینا،
انهیں دنوں میں دعوت کا کام کرنا، اور ان لمحوں میں دیگر کاموں اور ضروریات زندگی
سے خود کو الگ کر لینا، یہ سب ایک مروجہ دعوت ہے۔ جو نقل وعقل کے سرا سر منافی ہے۔
ایک مسلمان کی پوری زندگی داعیانہ ہے۔ تدریس کے وقت تدریس دعوت ہے۔ خطبہ کے وقت
خطبہ دعوت ہے۔ دوکانداری یا شاپنگ کے وقت طرز تکلم اور گفتار وکردار نیز اچھے
اخلاق اور امانت ودیانت داری کا سلیقہ دعوت ہے۔ روز مرہ کے کام کے دوران کسی کو اچھی
بات سکھا دینا کسی کی خامی پر تنبیہ کر دینا خیر کا حکم دینا برائی سے باز رہنے کی
تلقین کرنا، غرض پوری کی پوری زندگی ہی دعوت ہے۔
اسی طرح جو جہاں ہے وہیں اپنی پہونچ
تک دعوت کو عام کرے۔ حالات وظروف جب تک تقاضہ نہ کریں، دعوت کے لئے کسی دور دراز
کا سفر ضروری نہیں ہے۔ سب سے پہلے خود کی بصیرت اور تعلیم ضروری سمجھیں۔ جب اپنے
نفس کی اصلاح ہو چکے، تو پھر گھر والے اس کے بعد خاندان والے پھر محلے والے وعلی هذا...
ایسا نہ ہو کہ ہم اسلام پھیلانے کی
غرض سے دور دراز ممالک کا سفر کر رہے ہوں۔ جب کہ ہمارے گھروں میں بے دینی پهیل رہی
ہو۔ میری پہونچ پارلیمنٹ تک نا ممکن ہے۔ لهذا جو پارلیمنٹ میں ہے۔ وہ وہاں دعوت کا
کام سنبھالے۔ لچھے دار باتوں کے عادی ججوں اور وکیلوں کو کوئی قائل كر پانا هر ايك
كے لئے آسان نهيں هے۔ تو اس فلڈ میں جو انھيں جيسے نهج پر بات كرنے والا ہے۔ وہ ان
میں دعوت کا کام کرے۔ کوئی بڑے عالم ہیں۔ ان کے ہر لمحے قیمتی ہیں۔ لمحه بلمحه ان
گنت کو ان سےفائدہ پهونچ رها ہے۔ ان کے لئے وقت کا بڑا حصہ ضائع کر کے کسی پہاڑ
کنارے ایک چرواہے کے پاس جانا درست نہیں ہے۔ جب کہ یہ کام کسی اور سے بھي ہو سکتا
ہے۔ شیخ الحدیث جن سے سیکڑوں بچے استفادہ کرتے ہوں، وہ اپنا درس وتدریس چھوڑ کر
چالیس دن کے لئے نکل پڑیں، یہ بات معقول نہیں لگتی۔ جب كه يه تدريس بجائے خود اعلى
درجے كي اور افضل ترين دعوت هے۔ الا یہ کہ کچھ وقت کے لئے اس کی ضرورت آن پڑے۔
اسيطرح
جو جس معیار کا ہے اسی معیار پر وہ اپنا
دعوتی فریضہ انجام دے۔ کوئی تصنیف وتالیف کر سکتا ہے۔ وہ اس طریق دعوت پر کاربند
ہو۔ کوئی تدریس کر سکتا ہے۔ تو وہ اسی دعوت پر گامزن رہے۔ کوئی خطبہ دے سکتا ہے،
کوئی جلسے جلوس میں خطاب کر سکتا ہے، کوئی ایک دو آیتیں تلقین کر سکتا ہے، کوئی
لوگوں کو جمع کر سکتا ہے، کوئی نظم ونسق سنبھال سكتا هے، كوئي انتظام وانصرام میں
ہاتھ بٹا سکتا ہے، تو وہ وہی کرے جو اس كي صلاحيت اور اس كا مستوى هے۔ وہی اس کے
معیار کے مطابق اس کے ذمہ کی دعوت یا دعوت کے لئے تعاون ہے۔ ایسا نہ ہو کہ قصار
السور کو یاد کر لے اور فتوی دینا شروع کر دے۔ یا خطبہ کے لئے خود کو پیش کرتا
پھرے۔
علماء سے
ربط ضبط ركھے۔ ان سے هميشه استفاده كرتا رهے۔ جب بھي كوئي اشكال درپيش هو، انھيں سے
رجوع كرے۔ اهم ترين مسائل فتاوے يا اس دور كے جديد ترين مسائل ميں جري نه هو۔ ان
حالات ميں علماء كي جانب احاله كر دے۔ يا ان كے اجتهادات كو انھيں سے منسوب كر كے
نقل كر دے۔
دعوتي امور
كي اهميت وفضيلت اور اس كي نزاكت پر غور كريں۔تو هم جيسے چھوٹے طالب علم كے دل ميں
ڈر پيدا كرتي ايك حديث پر بات ختم كرتے هيں۔ حضرت حذيفه بن اليمان رضي الله عنه كي
روايت هے۔ كه ميں زياده تر رسول الله ﷺ سے برائيوں اور فتنوں كے بارے ميں سوال كيا
كرتا تھا۔ اس ڈر سے كه كهيں وه مجھے نه پا ليں۔
جب كه لوگ آپ ﷺ سے خير كے بارے ميں سوال كيا كرتے تھے۔ تو ميں نے كها: يا
رسول الله! هم جاهليت اور برائيوں ميں غرق تھے۔ پھر الله نے اس خير (اسلام) كو
لايا۔ تو كيا اس خير كے بعد بھي كوئي شر هے؟
آپ ﷺ نے فرمايا: "هاں!" ميں نے كها: كيا اس شر كے بعد كوئي خير بھي
هے؟ فرمايا: "هاں! اور اس (خير) ميں
دخن (كدورت ) هوگا" ميں نے كها: اس كا دخن كيا هے؟ فرمايا: "گروه جو ميري هدايت كے سوا پر
عمل كرے گا۔ ان كے كچھ اعمال كو پهچانوگے اور كچھ كو نهيں" ميں نے كها: پھر
اس خير كے بعد كوئي شر هے؟ آپ ﷺ نے
فرمايا: "هاں! دعاة جوجهنم كے دروازوں پر كھڑے هوں گے۔ وه اسے جهنم ميں گرا
ديں گے جو ان كي دعوت كو قبول كرے گا" ميں نے كها: يا رسول الله! هميں ان كي پهچان
بتا ديں۔ فرمايا: "وه هم هي ميں سے هوں گے۔ هماري زبان ميں بات كريں گے"
تو ميں نے كها: اگر اس (شر) نے مجھے پا ليا تو آپ مجھے كيا حكم فرماتے هيں؟ آپ ﷺ نے فرمايا: "مسلمانوں كي جماعت اور
ان كے امام (خليفه) كو لازم پكڑے رهنا" ميں نے كها: اگر اس وقت مسلمانوں كي
جماعت اور ان كا امام نه هو تو؟ فرمايا:
"پھر تو ان تمام فرقوں سے دور هٹ جانا۔ گرچه تمهيں درخت كي جڑوں كو دانتوں سے
چبائے رهنا پڑے۔ حتى كه اسي حال ميں تمهيں موت آجائے" (صحيح البخاري)
عبد الله
الكافي المحمدي
تیماء،
تبوک، سعودی عرب
بتاريخ: 17 ربيع الاول سنه 1440ھ موافق: 25 نومبر سنه
2018ء بروز اتوار