بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے محبوب سے الجھا تو میں نے طلاق لے لی !
جی ہاں ! میں ایک مطلقہ ہوں، اورمیں نے اپنے شوہر سے محض اس لئے طلاق لے لی ہے، کہ اس نے میرے اور میرے محبوب کے ما بین روابط میں نا ہمواری لانے کی کوشش کی تھی۔ لیکن قبل اس کے کہ آپ میرے بارے میں کوئی فیصلہ کریں، میری روداد الم سن لیں۔
عرصہ ہوا جب میں اپنے اسکول کی سینئر طالبہ تھی۔ عشق و محبت کی داستانیں سنا کرتی تھی۔سہیلیوں میں سے کوئی عشق کے افسانے سناتی ، کوئی محبت کے ترانے گاتی اور کوئی پیار کے نغمے گنگناتی۔ میں باوجود سن تمییز کو پہونچنے کے ان چیزوں سے دلچسپی نہیں لیتی تھی۔ نہ ہی میرے دل میں کبھی اس طرح کے خیالات اجاگر ہوئے ۔ ایسی باتوں کو سنی ان سنی کر دیتی ۔ گرچہ سہیلیوں کی وضع داری کیلئے سن لیا کرتی تھی۔
ایک روز میں اسکول سے واپس آ رہی تھی کہ راستے میں لوگوں کا ایک ہجوم نظر آیا۔ میں کچھ قریب پہونچی تو عجیب سا منظر دیکھنے میں آیا۔ خاص قسم کا شامیانہ لگا ہے، قسم قسم کے بائنر لگے ہیں، نئے طرز کا اسٹیج سجاہے، خواتین کو ایک کنارے گھیراؤ میں بند کر دیا گیا ہے۔ اس طرح کے انتظامات میں نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔جدت میں لذت ہوتی ہے۔ شاید اسی لئے میرے دل نے کچھ دیر رکنے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر میرے قدم اس طرف بڑھتے چلے گئے ، جس طرف عورتوں کی نششتیں لگی تھیں۔
غرضیکہ مجھے ایسے فنگشن میں شرکت کا موقع ملا، جو ہمارے اسکول کے پروگراموں سے یکسر مختلف تھا۔اس کے اسالیب وآداب الگ تھلگ تھے۔ زندگی میں پہلی بار اس طرز کے پروگرام میں شمولیت نصیب ہوئی تھی، میں دلچسپی سے حصہ لینے کا عزم مصمم کئے ہوئی تھی۔ مگر اس میں بھی محبت کی باتیں آگئیں،دل تو چاہا کہ آنکھ بند کر کے اندھا دھند گھر کی طرف دوڑ لگا دوں۔مگر مجلس کے آداب کا خیال کرتے ہوئے صبر وتحمل کے ساتھ بیٹھی رہی۔ پھر کچھ سوچ کر میں طوعا وکرھا سنانے کے لئے خود کو تیار کرنے لگی، کہ آخر یہ محبت ہے کیا بلاء ،جو ہر محاذ پر نظرآرہی ہے۔ مگر میری دلچسپی اس وقت بڑھ گئی، جب پتہ چلا کہ یہ محبت بھی وہ نہیں جو سنا کرتی تھی۔ پروگرام کی طرح مواد میں بھی فرق تھا، باوجودیکہ موضوع سخن وہی تھا۔
درمیان کلام ایک صاحب نے کہا :(دنیاوی زندگی میں ہر دل محبت سے آباد ہے)میں نے خود کو سنبھالا دیا۔ اور دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگی۔ پھر اس غور وخوض میں غرق ہو گئی ، کہ آج مجھے فیصلہ کرکے اٹھناہے کہ میں بھی کسی سے محبت کرتی ہوں، اور میرا دل بھی کسی کی محبت سے آباد ہے۔ مگر یہ سوچ کر مایوس سی ہو گئی ، کہ آخر وہ ہے کون جس سے میں محبت کروں!! اس دوران میرے اسکول کے کئی چہرے میری نظروں میں آئے اور غائب ہو گئے۔پھر وہ صاحب کہہ رہے تھے :(انسان کو اندھی محبت سے گریز کرنا چاہئے) یہ سن کر میں چونک گئی، کیونکہ میں اسی راستے پر تو جا رہے تھی۔اپنی باتیں جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا : (محبت اس سے کرنی چاہئے، جو بے نظیرمحسن اورلائق تعریف ہو ) اب جب کہ مطلب کی بات آگئی تھی، تو خود سے بیگانی ہو کر میں سننے میں منہمک ہو گئی۔
پروگرام کے اختتام پر نہایت سنجیدگی اور سکون ووقارکے ساتھ میں گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔ میں بالکل پرسکون تھی۔ میرا فیصلہ بھی ہو چکا تھا،میرا محبوب بھی مجھے مل گیا تھا، ایسا محبوب جو ہر اعتبار سے محبت کے لائق، بہت بڑا محسن اور قابل تعریف ہے۔میں نے اپنے دل کو اسکی محبتوں کے سوغات سے بھر لئے۔ گھر پہونچنے تک میرا دل اس کی محبتوں سے معمورتھا۔ایسی محبت جس میں خوف و رجاء کے ساتھ ساتھ خلوص تھا،جذبہ تھا، عقیدت تھی اور ایثارتھا۔ میں اسکی راہ میں ہر قربانی پیش کرنے کیلئے حاضر ،اور اس کی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار تھی۔
شب وروز یوں ہی گذرتے گئے، اس کی محبتوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ میرے دل کی دنیا بدل گئی۔ایک مخصوص طرز کی زندگی کو میں نے اپنا شعار بنا لیا۔ جسکے دائرے میں بہت کم لوگ آتے ہیں۔ اب تو ہر لمحے اسکی یادوں میں گذارنا میرا مشغلہ بن گیا۔ خود کو تھوڑی دیر کے لئے بھی اس سے غافل کر لینا میرے لئے نہایت مشکل ہو گیا۔ تعلیم مکمل ہو چکی تھی۔ اب سوائے اس کی یادوں کے اور کوئی کام نہ تھا۔ مزید قربت کیلئے پنج وقتہ نمازوں میں دیر تک دعائیں کرنا میرا لازمی عمل بن گیا۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دیر تک اس کی یادوں میں کھوئی رہنے لگی ان لمحات میں اپنی آنکھوں کو آنسؤوں سے ترکر لینا اپنی محبت کی صداقت سمجھنے لگی۔ سچ پوچھئے تو زندگی کی حقیقی مسرت ، قلبی سکون اورپر لطف شب و روز کی مٹھاس اب مجھے محسوس ہونے لگی تھی۔ میرے ذہن و نظر اور قلب وجگر میں میرا محبوب اور صرف میرا محبوب تھا۔سوچ سوچ کر ہر وہ کام کرنے لگی، جس سے میرے محبوب سے قریب اورقریب اورقریب ہو جاؤں۔بس یہی ایک حسرت اور تمنا دل میں سجائی رہنے لگی۔
ایک دن ایسا بھی آیا، جب میرے والدین کو میری شتر بے مہار عمر نے بے چین کردیا، اور وہ میرا گھر آباد کرنے کا سوچنے لگے۔ جبکہ میں خانہ آبادی کو میرے اور میرے محبوب کے درمیان دوری کا سبب سمجھ کر ٹالنا چاہتی تھی۔میں چوں کہ لوگوں کی نظر میں قبول صورت کے ساتھ ساتھ قبول سیرت بھی تھی۔ اسی لئے ایک سے بڑھ کر ایک رشتے آرہے تھے۔ انھیں دنوں ایک خوبصورت، گریجویٹ، برسرروز گارمالدار لڑکا مجھ سے شادی کا پیغام لے کر آیا۔تو میرے والدین نے اپنے فریضہ کی ادائیگی کے لئے مجھ پر دباؤ ڈالا۔ والدہ نے مجھے بہت سمجھایا۔آخر میں نے اپنے دل کی بات میری والدہ کو سنادی۔ انھوں نے پھر مجھے سمجھایا، کہ یہ لڑکا بھی تمہیں بہت زیادہ چاہتا ہے۔اس کے ساتھ تمہاری زندگی اچھی گذرے گی۔سمع و طاعت کے اصول پر مجھے جھکناپڑا۔ لیکن میں نے یہ شرط رکھی،کہ مجھے اور میری آئندہ نسل کو میرے محبوب سے حریت کے ساتھ ربط ضبط رکھنے کی اجازت دے گا۔ میری اس شرط کو اس نے قبول کرلیا۔ پھر اس کے ساتھ میری شادی ہوگئی۔ سسرال پہنچ کر میرے نئے ایام بڑے مزے میں گذرنے لگے۔ میں نے کچھ وقت میرے محبوب کے لئے خاص کر لئے، اورباقی اوقات میرے شوہر کو دینے لگی۔میرے اس تعامل میں بظاہر میرے شوہر کو کوئی اعتراض نہ تھا۔
دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں ڈھلتے گئے، اس دوران مجھے احساس ہونے لگا، کہ میرا شوہر میری کچھ چیزوں کو نا پسند کرتا ہے۔ مگر زبان سے نہ تو اسنے مجھ سے کوئی بات کہی، نہ میں کبھی استفسار کی کوئی ضرورت محسوس کی۔اب جب کہ ہمارے تین بچے ہو چکے تھے، میرے شوہر نے مجھ پر کچھ ایسی بندشیں شروع کردیں، جن سے مجھے تنگی محسوس ہونے لگی۔کبھی مجھے قدامت پسندی کے طعنے دیتا، کبھی میرے لباس کو ہدف تنقید بنا تا، کبھی نقد کے لئے اسے میری نمازیں مل جاتیں،کبھی قرآن پڑھنے پر پابندیاں لگاتا،غرضیکہ مجھے بہت سارے غیر مرضی اعمال پرمجبور کرنے لگا۔مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اصل مسئلہ میرے محبوب کاہے۔ جس سے مجھے دور کرنے کے لئے مختلف بہانے تراش رہاہے۔ یہ جان کر مجھے دلی تکلیف ہوئی، کہ میرا شوہر میری شرط کو بالائے طاق رکھ کر میرے اورمیرے محبوب کے معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ میں شروع میں اپنے حد تک اسے سمجھانے کی کوشش کرتی رہی۔ مگر میری ہر تدبیر نا کام ہو گئی۔ مجبورا میں نے اس سے طلاق کا مطالبہ کر لیا۔ اس نے مجھے طلاق دے دی۔ اور میں اپنے والدین کے گھر آگئی۔ اس کو بھی سکون مل گیا، اور مجھے بھی اس سے راحت مل گئی۔
تینوں بچے میرے محبوب کے حفظ و امان میں ہیں۔میرے ایام بہت سکون سے گذر رہے ہیں۔اب میں اپنا پوراپورا وقت میرے محبوب کو دیتی ہوں۔ دنیا کی کوئی شئ ہمارے درمیان حائل نہیں ہے۔ جیسا کہ میں شروع میں بتا چکی ہوں، کہ میری اس محبت میں خلوص کی آویزش بھی ہے، اورایثار کی آمیزش بھی۔میں خلوص کے ساتھ ایثار ہی تو کی ہوں۔ شوہر کی قربانی دے کر میں نے میرے محبوب سے قربت حاصل کرلی۔ اور کیوں نہ کرتی ؟ اس سے مجھے محبت جو ہے۔ اور محبت کا تقاضہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز محبوب کے قدموں میں جھونک دی جائے۔اور میرے محبوب سے مجھے کیوں نہ محبت ہو، وہی میرا خالق، میرا معبود، میرا مدبر، میرا مولی بلکہ رب العالمین ہے۔
(اللہم اجعل حبی لک اکثر من حبی للماء البارد عند العطش)
یا خالق الألحان یا مبدع الألوان * الیک قلبا یذوب حبا بالنور والإیمان
اے خوش الحانیوں کے خالق! اے رنگ وبو کے موجد! دل تيري محبت میں نور وایمان کے ساتھ تیری ہی جانب پگھلتا چلا جارہاہے۔
إعداد و تقدیم :
ابو محمد عبد اللہ الکافی المحمدی
مکتب دعوۃ وتوعیۃ الجالیات تیماءالمملکۃ العربیۃ السعودیۃ
۲۸؍۴؍۲۰۰۲ م ، بروز سنیچر، بوقت ، سات بجے شب