بسم اللہ الرحمن الرحیم
میری بہن ! میں تمہاری ہوں، مجھے لے لو
مشاہدہ وتجزیہ
خیبر کے ایریا میں سد البنت نامی ایک تفریحی علاقہ ہے،جہاں غیر ملکی سیاح بھی آمدو رفت کیا کرتے ہیں۔ اتفاق سے خاکسار کو بھی ایک وفد کے ساتھ ادھر سے گذرنے کا موقع ملا۔راستے سے متصل کچھ اجانب کے خیمہ زن قافلے نظرآئے۔ ان کے تقریبا ہر جملے میں لفظ اللہ آجایا کرتا تھا۔ مگر انھیں دیکھ کر شیطان بھی اپنی تخلف کا ماتم منا رہا تھا۔سعودیوں کی کئی فیملیاں بھی گاڑیوں سے اپنے سامان اتار رہی تھی۔ لیکن ان کی حرکتیں، شرمناک مناظر اور لباس وپوشاک دیکھ کر ہمارے پیچھے پیچھے وہ بھی رخصت ہو گئے۔
اس جگہ مجھے ایک دو تین سالہ پرانا واقعہ یاد آ گیا۔ صبح سویرے نماز فجر سے فراغت کے بعد جدہ ایئرپورٹ پر میں چائے پی رہا تھا۔آس پاس بہت کم لوگ نظر آرہے تھے۔ کئی میٹر لمبی نششت کے آخری سرے میں ایک مہذب خاتو ن شرافت کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ اسی دوران ایک آدمی آیا اور اسی نششت کے دوسرے سرے میں بیٹھ گیا۔ میں نے دیکھا وہ خاتون باوجود کئی میٹر دور ہونے کے فورا کھڑی ہوگئی۔ اور ایک موٹے سے کھمبے کے پیچھے چھپ گئی۔
میرا خیال ہے، یہ وہ عورت ہے جسے یاد کرنے کے لئے نام کے طور پر لفظ عورت استعمال کیا گیا ہے۔ یقیناًیہ عورت اپنے زمانے کے لئے آئیڈیل ہے۔ بالخصوص مرد نما عورتوں کے لئے۔ عورت کہتے ہی ہیں پاک طینت، عفت و عصمت اور شرم وحیا کے مجسمہ کو۔ بالکل ڈھکی چھپی چیز کو۔ جس طرح بے جان پتھر کی مورت کو روح نہ ہونے کے سبب اسے انسان نہیں کہا جاتا۔ ٹھیک اسی طرح ایک انسان نما مورت شرم وحیا اور پردہ کے بغیر عورت نہیں کہلا ئی جا سکتی، صحیح نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ ایک ریمو ٹ کنٹرول کے بل بوتے پر تھرکنے والی گڑیاہے، جس کا باگڈور یہودی ، مسیحی ، یااخلاقی سطح سے گرے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اور جس کے رگ وریشے میں بجائے نسوانیت کے تقلید اغیار کا بھوت سوار ہے۔ اگر وہ بے جان مورت نہ ہوتی، تو اس کی بیش بہا دولت اور انمول جوہر حسن کے دیکھ لئے جانے پر اسے یقیناًافسوس ہوتا۔ یا تو وہ پاگل ہوگی، جو اپنے حسن کو اپنی جوتیوں کے تسمے سے زیادہ کمتر سمجھتی ہو۔ جس کا دیکھ لیا جانا عام سی چیز ہے۔بلا شبہ اس واقعہ کو کچھ لوگ تعنت کا نام دیں گے۔لیکن یہ انھیں زیب دیتا ہے، جو حد اعتدال تک ناموس وآبرو کے پاسبان ہیں۔ انھیں قطعا حق نہیں ، جن کا مہذب دنیا میں ناموس وعزت کا کوئی معیار ہی نہیں ۔ یقینامذکورہ واقعہ صنف نازک کی جانب سے عریانیت کو عروج وارتقاء سمجھنے والوں کے چہرے پر ایک زور دار طمانچہ ہے۔
میرے ایک سنیئر استاذ بیان کرتے ہیں کہ میں ہوائی جہاز پر سفر کر رہا تھا۔ دوران سفرایک بھٹکی ہوئی اسلام کی بیٹی کو ائیر ہوسٹ کی شکل میں دیکھا۔جو غیر مرغوب وضع قطع کے ساتھ ٹھیک میری سیٹ کے سامنے براجمان تھی۔میں نے سوچا کہ بیٹی تو ہماری ہی ہے، اسے صحیح راستے کی پہچان دینی چاہئے۔ اسی دوران اللہ تعالے نے مجھے بہترین موقعہ دے دیا۔ اتفاقا بازو کی سیٹ سے ایک صاحب نے اس سے پانی مانگ لیا، اور وہ پانی لینے کیبین پر چلی گئی۔ میں نے ایک کاغذ پر یہ عبارت لکھ کر اس کی سیٹ پر رکھ دیا، کہ[ میری بیٹی ! ابھی جس حالت میں تم ہو، اگر اللہ کے رسول ﷺ کہیں قریب سے تمہیں بلانے بھیجتے، یا امہات المؤمنین رضی اللہ عنہم تم سے ملنا چاہتیں، تو کیا تم ان سے مل سکتی تھی ؟ اگر نہیں، تو تمہاری یہ حالت جسے تم اپنی دنیاوی ترقی سمجھتی ہوکس کام کی ہے ؟ میری بیٹی ! میرا رب تمہیں آخرت کی ترقی سے نواز دے ] میں نے دیکھا کہ اسے پڑھ لینے کے بعد وہ اپنی پریشانی چھپا نہ سکی۔ دوبارہ جب مجھے موقعہ ملا ، تو میں نے دوسرا رقعہ اس کی سیٹ پر رکھ دیا، جس پر لکھا تھا [ میری بیٹی ! تمہاری پریشانی خواہ اپنا کھویا ہوا وقار واپس لینے کے لئے ہو، یا تلافی ما فات کے لئے، دنیا وآخرت کی ہر قسم کی پریشانیوں کا علاج اور ہر قسم کی ترقیوں کی گارنٹی محض اسلامی تعلیمات پرعمل کرنے میں ہے۔کیا خوب ہو کہ تم فی الواقع عائشہ وفاطمہ رضی اللہ عنہم کی بیٹی بن جاؤ۔اللہ تعالی تمہیں حقیقی سکون سے نوازے ] اس بار پڑھنے کے بعد اس کی نگاہیں ادھر ادھراس لکھنے والے کو ڈھونڈ رہی تھیں۔کئی بار لکھنے اور اس کے رد عمل کا تبادلہ ہوا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آئے، پھر وہ اپنی کیبین کی طرف جاتی نظر آئی۔اور جب واپس آئی تو میں اس وقت تک پہچان نہ سکا،جب تک وہ ائیر ہوسٹ کی اپنی مخصوص سیٹ پر بیٹھ نہیں گئی۔کیوں کہ وہ بالکل بدلی ہوئی تھی۔ آخرمنزل تک لکھنے والے کو پہچاننے کی کوشش کرتی رہی۔ اپنی پہچان دیئے بغیر اصلاح کی کوششوں میں کامیابی کی خوشیاں لئے اس سے دور تو ہو گیا، مگر آج بھی جب کبھی اس کی یاد آتی ہے، تو میرا دل اسے ڈھیر ساری دعائیں دیتا ہے۔
میرا دل چاہ رہا ہے کہ ایسے استاذ کا سر چوم لوں۔ انھوں نے ایک انسانیت ساز فیکٹری کا قیام عمل میں لایا۔ ان شاء اللہ اس سے نکلنے والا مال اوریجنل جاپانی ہوگا۔ آخر کیا سبب ہے کہ ہم ایسی کوششیں نہ کریں۔ کب کس کی کوشش کامیاب ہو جائے، اور ایک انسان کی دنیا وآخرت بدل جائے، اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے۔ اگر ہم رد عمل کے اعتبار سے نا کام بھی ہو گئے، تواپنے اخلاص کے مقدار اس کے ثواب کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔
میں تبوک سے بذریعہ بس تیماء جارہاتھا۔ سیٹ پر بیٹھنے کے بعد جب بس روانہ ہوئی، تو میں کھڑکی کے قریب بیٹھے سعودی عرب کے قدیم ترین تاریخی شہر کے دلفریب مناظر سے محظوظ ہو رہا تھا۔باہر کے دلکش مشاہدے میں اس قدر محو تھا، کہ بس نے جب ایک بار موڑ لیا تو میں اگلی سیٹ سے ٹکراتے ٹکراتے بچ گیا۔سنبھلنے کے لئے میں نے دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔اتفاقا میرا بایاں ہاتھ ایک ایسے مظروف پر پڑا، جو انتہائی خوبصورتی سے سنہرے رنگ میں رنگاتھا۔ جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا، تو دیکھا کہ جیب نما جگہ پر ایک خوبصورت لفافہ رکھا ہے۔ جس میں جگمگاتے نور بکھیرتے ایک موتی اور اس کے نیچے ایک گلاب کا پھول فن مصوری کو منھ چڑا رہے تھے۔ ظرف کئی قسم کے رنگوں میں پھول بوٹے کے ساتھ خوبصورتی کا نمونہ لگ رہا تھا۔ اور ہر دیکھنے والے کو دعوت دید دے رہا تھا۔ اس کی خوبصورتی اور نزاکت بتا رہی تھی، کہ صنف نازک کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہوگا۔ میں سمجھ رہا تھا، شاید یہ انعام واکرام صر ف میرے لئے ہے۔ مگر مجھے ہر سیٹ سے چسپاں یہی لفافہ نظر آیا۔
میری نگاہ جب اوپری حصے میں پڑی تو میں مایوس سا ہوگیا۔ کیوں کہ اس پرعربی میں لکھا تھا ، میری بہن ! میں تمہاری ہوں، مجھے لے لو۔ ظاہر ہے میں اس کی بہن تو تھا نہیں، اور نہ اس کی بہن کی بہن۔ اس لئے مجھے لینے کا کوئی حق نہیں تھا۔ اس کے نیچے ٹھیک لفافے کے وسط میں عربی ہی میں لکھا تھا۔ میری بہن ! تم موتی بننا پسند کروگی یا گلاب کا پھول ؟ اس جملے کے سامنے اس کی کسی بہن نے یہ لکھ کر قلم زد کردیاتھا، ابغی ان اکون وردۃ ، کہ میں گلاب کا پھول بننا پسند کروں گی۔ لکھنا تو سمجھ میں آیا، کہ کسی نے اسے پڑھنے کے بعد اس پر اپنا موقف لکھ دیاہو۔ لیکن پھر اسے کاٹ دینا میری سمجھ میں نہیںآسکا۔
جب میری نگاہ اس کے نیچے گئی تو بلا سوچے سمجھے میں نے لفافہ ہاتھوں میں لے لیا۔ کیوں کہ دیکھا یہ پمفلیٹ دکتورہ بنت الشاطی کے اقتباس پر حاوی تھا۔ اس طرح میرا عندیہ صد فی صد صحیح نکلا۔ کیوں کہ صنف نازک کا اس پمفلیٹ سے گہرا بلکہ پورا پورا تعلق تھا۔ محرر ومحرر مبلغ ومبلغ سب کے سب صنف نازک ہی تھی۔ دکتورہ عائشہ جو بنت الشاطی کے نام سے شہرہ آفاق ہیں ، فصاحت زبان ،بلاغت کلام ،اسلوب بیان، عربی ادب اور مؤثر تحریروں میں سند یافتہ ہیں۔ان کی تحریر یں دل نہ چاہے تو بھی پڑھنے کو جی کرتاہے۔
بہر حال ! اسے کھول کر پڑھنے لگا، باتیں بڑی اچھی تھیں، میری نگاہیں پھسلتی چلی گئیں۔جب پڑھ چکا تو میں خود کو کسی خوب صورت گارڈن کے اندر مختلف الانواع پھولوں میں گھرا محسوس کیا، جہاں ایک دلچسپ منظر میری نگاہوں میں تھا۔
(عربی میں مطویۃ ، لؤلؤۃ ، وردۃ یعنی پمفلیٹ، موتی اور گلاب کا پھول مؤنث استعمال ہوا ہے، اس کی رعایت کر رہا ہوں)
موتی : ( شرماتے لجاتے ہوئے چند قدم آگے رک کر ) جی ! کہو کیا بات ہے ؟
گلاب کا پھول : سلام نہ کلام، سر جھکائے چپ چاپ چلی جا رہی ہو۔
موتی : بے پردگی اچھی چیز نہیں ہے۔ مجھے اس سے سخت نفرت ہے۔
گلاب کا پھول : اری ! میں تو تمہاری بہن ہوں، کوئی اجنبی مرد نہیں ہوں کہ تم مجھ سے پردہ کرو۔
موتی : ٹھیک ہے تم مرد نہیں ہو، لیکن مردوں سے کم بھی نہیں ہو، کیوں کہ مردوں کی طرح بے حجاب گھومتی ہو۔ اور چونکہ تم غیر مردوں سے پردہ نہیں کرتی ہو، اگر ان کے سامنے میری صفتیں بیان کرنے لگیں تو میرے پردہ کا کیا حاصل ؟!!
گلاب کا پھول : واہ ! اللہ نے مجھے حسن دیاہے چھپانے کے لئے ؟ دوسرے لوگ میری خوبصورتی سے محظوظ نہ ہوں ، اور میرے حسن کے دیدار سے لطف اندوز نہ ہوں، تو اس خوبصورتی کا کیا فائدہ ؟
موتی : اللہ نے تم کوجو حسن دیا ہے، یہ حسن تمہارے لئے ہے، اور تم ہی اس کی حفاظت کے ذمہ دار بھی ہو،تمہارے اس حسن میں کسی اور کو حصہ نہ دو۔ اس سے تمہارا معیار گھٹ جائے گا، اور دوسروں کے دل میں رفتہ رفتہ تمہاری چاہت بھی کم ہو جائے گی۔
گلاب کا پھول : میری بہن ! ایک بات تو بتا دو ، لوگ مجھ سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ میری عدم موجودگی شب زفاف میں نقص تصور کیا جاتا ہے، میرے بغیر سیج نامکمل سمجھا جاتاہے، دل کے حساس و لطیف جذبات کے اظہار کے لئے میرا سہارا لیا جاتا ہے،نازک ترین رشتوں کی ہمواری کے لئے ایک دوسرے کو میرا ہدیہ دیا جاتاہے، زبان سے جو بات نہ کہی جاسکے، میرے تبادلے سے وہ رموز واشارات
کی ساری باتیں سمجھ لی جاتی ہیں، میاں بیوی اور حبیب ومحبوب کا رابطہ میں ہی ہوں، مگر کام نکلتے ہی مجھے یا تو روند ڈالتے ہیں، یا خشک ہو کر پھینک دی جاتی ہوں، کبھی سیج پر ہی مسل کر میرا دم توڑدیا جاتاہے ، اگر پودے میں رہ گئی تب بھی ہر عاشق مزاج ومجاور، تقی وفاجر میرے لمس کو اپنا حق سمجھتاہے، پھر تھوڑی دیربعد مسل کر پھینک دیتاہے۔ اور ہاں ! مجھ سے دنیا کی محبت سطحی ،عارضی اور مؤقت، جب کہ تمہاری چاہت عمیق ازلی اور دائمی ہے۔ آخر اس کا راز کیا ہے کہ تم کو ہمیشہ نازک ترین ریشمی رومالوں میں لپیٹ کر الماریوں، صندوقوں اور بکسوں میں ر کھا جاتاہے، جب کہ میرا آخر انجام گٹر کی زینت بننا ، یا کوڑے کرکٹ کے سپرد ہونا ہے ؟!!
موتی : میری بہن ! تمہاری داستان بڑی دکھ بھری ہے۔ لیکن اس کا سبب تم خود ہو، ابھی صحیح سے بالغ ہوئی نہیں کہ پوری طرح کھل جاتی ہو، اور ہرآنے جانے والے کو دعوت نظارہ حسن دیتی ہو، تمہارے حسن کا دروازہ ہرایک کے لئے کھل جاتاہے، کبھی کوئی بھنورا لوٹ لیتاہے، اور کبھی کوئی شہد کی مکھی تمہیں چوس لیتی ہے۔ تمہارے اندر کچھ رہ نہیں جاتاہے، پھر لوگوں کادل بھی تمہاری دید سے بھرچکا ہوتا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ، کیا تمہاری محبت کو دوام مل سکتا ہے ؟ جب کہ دنیا میں بہت کم ایسے خوش نصیب ہوں گے، جنھوں نے میرا چہرہ دیکھا ہے۔ اسی لئے ہر دل میں میری دید کی تمنا ہوتی ہے۔ بہتوں ایسے ہیں جو مجھے ایک نظر دیکھنے کی حسرت لیئے قبروں میں پہونچ گئے۔ تم نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی کھل جانے کو اپنا شعار بنا لیا، اورکھلتے ہی اپنے رخ سے نقاب اتار پھینکا۔جس کی وجہ سے تمہاری محبت سطحی، عارضی اورمؤقت ہو گئی۔ کیوں کہ دیکھ لیئے جانے کے بعد تمہاری جاذبیت اور کشش ختم ہو گئی۔ اورنہ دیکھے جانے کے سبب میری جاذبیت اور کشش برقرار رہ گئی۔ اسی وجہ سے میری محبت عمیق، دائمی اور ازلی ہے۔ میں ریشمی رومالوں میں لپٹے ہونے کے بعد بھی باہر نہیں گھومتی۔ بلکہ الماریں، صندوقوں اور بکسوں میں روز وشب گزارتی ہوں۔ تم نے پوچھا ہے کہ اس دائمی و ازلی محبت کا راز کیا ہے ؟ تو سنو! اس راز کا مہذب نام : پردہ ہے۔ میری بہن ! میرا رب تمہیں میری حقیقی بہن (موتی یعنی پردہ کا حامل) بنائے ۔تاکہ تمہاری محبت کو بھی دوام مل سکے۔
میں اس حسین گفت و شنید کے بھول بھلیوں میں کھویا رہا، خود کا احساس اس وقت ہوا ، جب اچانک میں چونک کر متنبہ ہوا ، در اصل میرے دل میں ایک چونکا دینے والا سوال ابھر رہاتھا۔ بلا استثناء زمان ومکان ،میری ہر بہن کو جن کی نظر التفات بشاشت طبع کے ساتھ ان تحریروں کی جانب ہو، میرا دل یہی استفسار کرنا چاہتا تھاکہ : میری بہن ! تم موتی بننا پسند کروگی، یا گلاب کا پھول ؟!!!
یہ کوئی خواب نہیں تھا، صرف میرے جذبات وخواطر اور احساسات تھے۔ بے ہنگم تفکرات کے سمندر میں موج بے کراں سے خود کو آزاد کرانے کے لئے میں نے سر جھکا لیئے،تو میری نگاہوں میں دکتورہ بنت الشاطی کا یہی سوال رقص کر رہاتھا۔ کہ میری بہن ! تم موتی بننا پسند کروگی یا گلاب کا پھول ؟ یہاں بھی کسی بہن نے قلم سے لکھ دیا تھا : ابغی ان اکون لؤلؤۃ ، کہ میں موتی بننا پسند کروں گی۔ یہ تعلیق بھی غالبا اسی کی رہی ہوگی، جس نے شروع میں گلاب کا پھول بننا پسند کیا تھا۔کیوں کہ رائیٹنگ ایک ہی تھی۔فرق یہ تھا کہ پہلی تعلیق کو قلم زد کر دیا گیا تھا۔ شاید کسی پڑھنے والی نے پمفلیٹ پڑھنے سے پہلے ہی گلاب کا پھول بننا پسند کرلیاہو، اورپڑھنے کے بعد اس کا فیصلہ بدل گیا ہو،اسی لئے اس نے تعلیقات میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی۔کاش ! میری ہربہن کا فیصلہ بدل جاتا، اور وہ اپنے دل کی تعلیقات میں ترمیم کر لیتیں! میرا جی چاہ رہا تھا کہ اس پمفلیٹ کو چپکے سے سوٹ کیس میں بھر لوں،مگراسی محفوظ مقام پر رکھ دیا، جہاں سے نکالاتھا۔کیوں کہ مجھے اس کے لینے کا حق نہیں تھا۔یہ بھی سوچا کہ ممکن ہے میرے بعد آنے والی کسی بہن کے دل کی دنیا بدل جائے ۔ اور وہ گلاب کے پھول سے موتی بن جائے۔
بس نصف منزل طے کر چکی تھی۔اور دھواں دھار تیماء کی طرف رواں تھی۔اس دوران میں دنیا کے بہت سے گوشوں کا سیر کر چکا تھا۔بس کے ایک کنارے کھڑکی کے قریب بیٹھے دل ہی دل میں پس منظر، پیش منظر اور درون خانہ کا جائزہ لینے لگا، کہ آخر اس زندگی کا کیا حاصل جس میں سب کچھ ہو، مگرعزو شرف کا جنازہ اٹھ جائے ؟ دیر تک ملکی حالات ، علاقائی نظام، موجودہ مسلم معاشرتی آداب، اسالیب وطرز زندگی اور رسومات کو یاد کرتا رہا۔میرے جذبات پردے کی دھجیاں اڑتے، نقابوں کے چتھڑے بکھرتے، ناموس وعزت کے پرخچے اڑتے دیکھ کرذہن ودماغ پرتیشہ زنی کرتے رہے۔ میری بہنوں کے نورانی چہرے گردو غبار میں اٹے ہوئے،ہراساں ہراساں نظر آ رہے تھے۔ ان کی زبان حال اپنے بھائیوں، محافظوں اور پاسبانوں کو آواز دے رہی تھی۔دیر تک کانوں میں آزادئ نسواں کی خاطر نعرے بازی کی صدائیں گونجتی رہیں۔بس کے کنارے بیٹھے میرا ذہن اسلامی پردہ کے منتشر ٹکڑوں کو ترتیب دے رہا تھا۔ مگر کھڑکی سے باہر بہت دور پہاڑیوں پر میری نگاہیں مرکوز تھیں۔ جہاں کچھ جھاڑیاں، کانٹے دار درخت، چرتے ہوئے مویشی اور ان کے چرواہے نظر آ رہے تھے۔میری آنکھوں سے چند قطرے نکل کر میرے رخسار میں جذب ہو گئے ۔
اعداد وتقدیم
أبومحمدعبد اللہ الکافی المحمدی
مکتب دعوہ وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء سعودی عرب
بتاریخ ۱۴؍ ۴؍ ۱۴۲۳ ھ بروز منگل بوقت ڈھائی بجے شب
أبومحمدعبد اللہ الکافی المحمدی
مکتب دعوہ وتوعیۃ الجالیات بمحافظۃ تیماء سعودی عرب
بتاریخ ۱۴؍ ۴؍ ۱۴۲۳ ھ بروز منگل بوقت ڈھائی بجے شب